Maktaba Wahhabi

340 - 354
گا۔ شریعت میں اذکار وہی ہیں ، جو بذات خود کوئی فائدہ دے، نہ کہ کسی دوسرے کے ساتھ مل کر۔ ایسے اذکار کے پابند کچھ لوگ الحاد و وحدت الوجود جیسی گمراہی کا شکار ہو چکے ہیں ، جس پر تفصیلی روشنی کسی اور جگہ ڈال دی گئی ہے۔ بعض مشائخ کا کہنا ہے : ’’مجھے خدشہ ہے کہ میں نفی و اثبات کے درمیان ہی فوت نہ ہو جاؤں ۔‘‘ ایسوں کی اقتدا نہ کی جائے۔ یہ واضح خطا ہے ، کیوں اس حالت میں فوت ہو جانے کی صورت میں اسے نیت کے مطابق صلہ ملے گا، اس لیے کہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کو کلمہ طیبہ کی تلقین کرنے کا حکم دیا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ جس کا آخری کلام کلمہ طیبہ ہوا، وہ جنتی ہے۔ اگر قریب المرگ سہما ہوا ہو، تو اسے کلمہ پیش نہیں کیا جائے گا، کیوں کہ ڈر ہے کہ کہیں اسی اثنا بری موت نہ مر جائے… اور ضمیر سے اللہ کا ذکر کرنا سنت سے دوری، بدعت میں دخول اور شیطانی ہتھ کنڈے کا شکار ہونا ہے۔ کیوں کہ یَا ہُوَ، یَاہُوَ یا ہُوَ، ہُوَ وغیرہ کا ذکر میں ضمیر کا مرجع وہی ہو گا جسے دل تصور میں لائے۔ دل کبھی صحیح ہوتا ہے اور کبھی بھٹکا ہوا۔ فصوص کے مصنف نے ایک کتاب الْھُوَ نامی کتاب بھی لکھی ہے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان : ﴿وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیلَہٗ إِلَّا اللّٰہُ﴾(آل عمران : 7) ’’اس کی تاویل صرف اللہ جانتا ہے۔‘‘ کا معنی ہے کہ اس اسم ’ہو‘ کا معنی اللہ ہی جانتا ہے۔ اگرچہ اس قول کا بطلان واضح ہے، لیکن پھر بھی کچھ لوگوں نے یہ مراد لیا ہے۔ ایک بار مجھے کسی نے جب یہ کہا تو میں
Flag Counter