ہے اور خواص الخواص کا ذکر اسم ضمیر (ھو) ہے، ایسا شخص غلطی کھا رہا ہے اور بے راہ روی کا شکار ہے۔ بعض نے اس پر یہ آیت دلیل بنائی ہے : ﴿قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْہُمْ فِي خَوْضِہِمْ یَلْعَبُونَ﴾ (الأنعام : 91) ’’فرما دیجئے کہ اللہ ہے، بس آپ انہیں اپنی خوش فہمی میں ہنستا کھیلتا چھوڑ دیں ۔‘‘ یہ ان کی فحش غلطی ہے، کیوں کہ اس میں لفظ اللہ جواب استفہام کے طور پر امر کے تحت واقع ہوا ہے، استفہام یہ ہے : ﴿قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْکِتَابَ الَّذِي جَائَ بِہٖ مُوسٰی نُورًا وَّہُدًی لِلنَّاسِ﴾ (الأنعام : 91) ’’پوچھیے کہ موسیٰ علیہ السلام پر نور وہدایت پر مبنی کتاب نازل کرنے والی ذات کون تھی؟‘‘ جواب استفہام یہ ہے: ﴿قُلِ اللّٰہُ﴾(الأنعام : 91) ’’فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہی موسیٰ علیہ السلام پر کتاب نازل کی ہے۔ لہٰذا لفظ اللہ مبتدا ہے اور جملہ استفہام خبر ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی سے پوچھیں کہ : مَنْ جَارُہٗ فَیَقُولُ : زَیْدٌ ’’اس کا پڑوسی کون ہے؟ وہ کہے کہ زید۔‘‘ لفظ اللہ خواہ ظاہر ہو یا ضمیر، ہر دو صورت جملہ مفید یا کلام تام نہیں ہو سکتا اور نہ اس سے ایمان، کفر، امر و نہی کا تعلق ہے۔ اسلاف امت میں سے کسی نے ’’اللہ اللہ‘‘ کا ذکر نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے مشروع نہیں کیا۔ نیز اس سے دل کو معرفت تامہ حاصل ہوتی ہے، نہ کوئی فائدہ ملتا ہے۔ ہاں ایک ہلکا سا خاکہ ضرور ملتا ہے، جس پر نفی یا استفہام کسی کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ اگر اس سے کوئی معرفت تامہ کا فائدہ ملے تو صحیح، ورنہ بے فائدہ ہو |