أَحَدٌ، أَحَدٌ ۔ ’’سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو مشرکین مکہ نے نوجوانوں کے سپرد کر دیا، جو آپ رضی اللہ عنہ کو مکہ کی وادیوں میں گھسیٹتے اور آپ رضی اللہ عنہ احد احد کی صدائیں بلند کرتے۔‘‘ (مسند الإمام أحمد : 1/404، سنن ابن ماجہ : 150، وسندہٗ حسنٌ) اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (7083) نے ’’صحیح‘‘ اور امام حاکم رحمہ اللہ (284/3) نے ’’صحیح الاسناد‘‘ کہا ہے۔ ذکر مفرد پر اس کو دلیل بنانا درست نہیں ، کیوں کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ’’احد احد‘‘ بہ طور ذکر نہیں کہتے تھے، بلکہ مشرکین کے جواب میں ’’احد احد‘‘ کہتے تھے، مراد اللہ کی وحدانیت کا اعلان تھا۔ 4.سیدنا ابو درداء اور سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں : إِنَّ اسْمَ اللّٰہِ الْـأَکْبَرَ رَبِّ رَبِّ ۔ ’’اسم اعظم ’’رب رب‘‘ ہے۔‘‘ (المستدرک للحاکم : 1/505، الدّعا للطّبراني : 119) اگر ہشام بن ابی رقیہ رحمہ اللہ کا سیدنا ابو درداء اور سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے سماع ثابت ہو جائے، تو سند حسن ہے۔ بشرط صحت روایت یہ ذکر مفرد کی دلیل نہیں بن سکتی، کیوں کہ اس میں ’’رب رب‘‘ کے ساتھ ذکر کرنا مراد نہیں ، بلکہ اسم اعظم کے ساتھ دعا کرنا مراد ہے۔ واللہ اعلم! شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں : ’’جو یہ کہے کہ یہ عام لوگوں کا ذکر ہے، جب کہ خواص کا ذکر اسم مفرد (اللہ) |