مولانا اشرف علی تھانوی صاحب بھی کہتے ہیں : ’’واقعی اس سے استدلال ہو بھی نہیں سکتا، کیونکہ اس میں ’’اللہ‘‘ قل کا مقولہ نہیں ، کیونکہ قول کا مقولہ مفرد نہیں ہوتا، بلکہ جملہ ہوتا ہے، بلکہ یہ تو ’’انزل‘‘ مقدر کا فاعل ہے، جس کا قرینہ سیاق کلام ہے۔‘‘ (اشرف الجواب، ص 175، حصہ دوئم) دوسری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے : 2.سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتّٰی لَا یُقَالَ فِي الْـأَرْضِ : اَللّٰہُ، اَللّٰہُ ۔ ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی، جب تک زمین میں ’’اللہ اللہ‘‘ کہا جانا ختم نہ ہو گا۔‘‘ (صحیح مسلم : 148) اس حدیث سے مفرد ذکر پر استدلال درست نہیں ، کیوں کہ اسی سند کے ساتھ مسند احمد (3/162) میں یہ الفاظ ہیں : لَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتّٰی لَا یُقَالَ فِي الْـأَرْضِ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ۔ ’’جب تک لا الہ الا اللہ پڑھنے والے موجود ہوں گے، قیامت قائم نہیں ہو گی۔‘‘ جب اہل توحید دنیا سے اٹھ جائیں گے، اللہ تعالیٰ کا نام لیوا کوئی نہیں ہو گا اور خالص عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا، تو برے لوگوں پر قیامت قائم ہو جائے گی۔ 3.سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : أَعْطَوْہُ الْوِلْدَانَ، وَأَخَذُوا یَطُوفُونَ بِہٖ شِعَابَ مَکَّۃَ، وَہُوَ یَقُولُ : |