ہیں وہ اس حدیث کی مخالفت تو نہیں کر رہے؟ ایک نیا شبہ ملاحظہ ہو : ’’الحرف الحسن(احمد رضا خان بریلوی کی تصنیف) میں ترمذی سے نقل کیا کہ صدیقِ اکبر سے روایت ہے کہ جو کوئی عہدنامہ پڑھے تو فرشتہ اسے مہر لگا کر قیامت تک کے لیے رکھ لے گا، جب بندے قبر سے اُٹھائے جائیں گے تو فرشتہ وہ نوشتہ ساتھ لا کر ندا کرے گا کہ عہد والے کہاں ہیں ؟ ان کو یہ عہد نامہ دیاجائے گا،امام ترمذی نے فرمایا کہ’عَنْ طَاؤُوْسٍ أَنَّہٗ بِہٰذِہِ الْکَلِمَاتِ، فَکُتِبَ فِي کَفْنِہٖ‘( الحرف الحسن)‘‘ (جاء الحق : 1/339) بے سند ہے، اس پر شرعی احکام کی بنا نہیں ڈالی جاسکتی، رہا امام طاؤوس رحمہ اللہ کا قول، تو اس کا حوالہ اور سند نہیں مل سکے۔ ایک دعوی پہ نظر ڈالئے : ’’عہد نامہ یا کلمہ طیبہ لکھنا، یہ دونوں کام جائز اور احادیثِ صحیحہ، اقوالِ فقہا سے ثابت ہیں ۔‘‘(جاء الحق از نعیمی : 336/1) وہ احادیث صحیحہ کہاں ہیں ؟ بے سند روایات تو صحیحہ نہیں ہوتیں ۔ ایک حکم نامہ پیش خدمت ہے : ’’میت کے لیے کفن وغیرہ پر ضرور عہد نامہ لکھا جاوے۔‘‘ (جاء الحق : 1/341) فتاویٰ بزازیہ سے منقول ہے : ’’اگر میت کی پیشانی یا عمامہ یا کفن پر عہدنامہ لکھا تو اُمید ہے کہ اللہ اس کی |