’’قبر میں شجرہ رکھنا بزرگان دین کا معمول ہے، لیکن اس کے دو طریقے ہیں ، ایک یہ کہ مردے کے سینہ پر کفن کے اوپر یا نیچے رکھیں ، اس کو فقہا منع کرتے ہیں ، دوسرے یہ کہ مردے کے سر کی طرف قبر میں طاقچہ بنا کر شجرہ کاغذ میں رکھیں ۔‘‘ (جاء الحق : 337/1) اگر بزرگان دین سے مراد سلف صالحین، ائمہ محدثین ہیں ، تو یہ خلاف واقعہ ہے، اگر کوئی اور ہے، تو معذرت کہ ان کی بزرگی کا معیار بھی صحابہ و تابعین کا عمل ہے، نہ کہ کوئی اور۔ ایک روایت بھی منقول ہے : ’’میت کی پیشانی یا کفن پر عہد نامہ یا کلمہ طیبہ لکھنا، اسی طرح عہد نامہ قبر میں رکھنا جائز ہے، خواہ تو انگلی سے لکھا جائے یا کسی اور چیز سے، امام ترمذی حکیم بن علی نے نوادر الاصول میں روایت کی کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا: مَنْ کَتَبَ ھٰذَا الدُّعَائَ وَجَعَلَہٗ بَیْنَ صَدْرِ الْمَیِّتِ وَ کَفَنِہٖ فِي رُقْعَۃٍ لَمْ یَنَلْہٗ عَذَابُ الْقَبْرِ، وَلَا یَرٰی مُنْکَرًا وَّنَکِیْرًا ۔ جو شخص اس دعا کو لکھے اور میت کے سینے اور کفن کے درمیان کاغذ میں لکھ کر رکھے، تو اس کو عذاب قبر نہ ہو گا اور نہ منکر نکیر کو دیکھے گا۔‘‘ (جاء الحق : 1/338) نوادر الاصول تو کجا، دنیا کی کسی حدیث کی کتاب میں اس کا ذکر تک نہیں ۔یہ وضعی بے سند اور من گھڑت روایت ہے، محولہ بالا کتاب جاء الحق کے مصنف یہاں سے چند صفحات قبل ہی لکھ آئے ہیں کہ فقہا مردے کے سینے پر شجرہ یا عہدنامہ رکھنا ممنوع قرار دیتے ہیں ، تو جو فقہا اسے ممنوع قرار دیتے |