حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ ۔ ’’یہ حدیث صحیح ہے۔‘‘ (الأباطیل والمَناکیر : 2/203) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : إِسْنَادُہٗ کُلُّہُمْ ثِقَاتٌ مَشَاہِیْرٌ، وَہُوَ مُتَّصِلٌ بِلَا عَنْعَنَۃِ ۔ ’’اس کے تمام راوی مشہور ثقہ ہیں اور یہ سند عنعنہ کے بغیر متصل ہے۔‘‘ (اقتضاء الصّراط المستقیم، ص 186) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے ۔ (التّلخیص الحبیر : 4/198، بلوغ المرام، کتاب الأیمان والنّذور) علامہ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ (744ھ) لکھتے ہیں ’’ اس میں دلیل ہے کہ جس جگہ مشرکین کامیلہ لگتا ہو، اس جگہ کی تعظیم میں جانور ذبح کرنا اسی طرح ناجائزہے، جس طرح بت کی تعظیم میں اس کے نزدیک ذبح کرنا۔ یہ سب شرک کی طرف جانے والے راستے بند کرنے اور توحید کی حفاظت و صیانت کے لیے ہے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر وغیرہ پر میلہ لگنے والی جگہ پر جانور ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر کو عید گاہ اور میلہ بنانے سے منع کرنا بالاولیٰ ثابت ہو گا، کیونکہ قبر کو میلہ گاہ بنانے کے نقصانات میلہ گاہ پر جانور ذبح کرنے سے بہت زیادہ ہیں ۔یہ سب احادیث دلیل ہیں کہ قبروں کو ایسی چیزوں کے ساتھ خاص کرنا، جن سے ان پر آنا جانا زیادہ ہو، ان پر سجدہ کیا جائے، انہیں میلہ گاہ بنایا جائے، ان پر چراغاں کیا جائے، ان کے نزدیک جانوروں کو ذبح کیا جائے، حرام ہے۔ ان احادیث کے مقاصد اور ان کا مشترکہ مفہوم اس سے مخفی نہیں ، جس نے خالص توحید کی خوشبو بھی سونگھی ہو ۔ یہاں اس شخص کی تاویل کا بطلان |