قَبْرِي عِیْدًا، فَإِنَّ اعْتِیَادَ قَصْدِ الْمَکَانِ الْمُعَیِّنِ فِي وَقْتٍ مُّعَیِّنٍ عَائِدٌ بِعَوْدُ السَّنَۃِ أَوِ الشَّہْرِ أَوِ الْـأُسْبُوْعِ ہُوَ بِعَیْنِہٖ مَعْنَی الْعِیْدِ ثُمَّ یُنْہٰی عَنْ دِقِّ ذٰلِکَ وَجِلِّہٖ ۔ ’’الحاصل ان قبروں پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بعینہٖ وہی ہے، جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا تھا کہ میری قبر کو عید نہ بنانا۔ اعتیاد کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی خاص جگہ کا کسی معین وقت میں جو سال، مہینے یا ہفتے بعد لوٹ کر آئے، قصد کرنا۔ بالکل یہی معنی عید کا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے چھوٹے بڑے ہر کام سے منع فرما دیا ہے ۔ ‘‘ (اقتضاء الصّراط المستقیم، ص 258-257) نیز فرماتے ہیں : ’’دلالت یوں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر روئے زمین کی سب قبروں سے افضل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے میلہ گاہ بنانے سے منع فرمایا ہے، تو دوسری سب قبریں خواہ کسی کی بھی ہوں ، انہیں میلہ گاہ بنانے کی ممانعت بالاولیٰ ہو گی۔ پھر ایک دوسری حدیث پڑھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے گھروں کو قبریں مت بناؤ، یعنی انہیں نماز، دعا اور قرأت سے خالی نہ کرو کہ وہ قبروں کی طرح ہو جائیں ۔ یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں عبادت کا اور قبروں پر عبادت سے رُکنے کا حکم دیا ہے،یہ فرمانِ نبوی اس طریقے کے خلاف ہے جسے عیسائی اور ان سے مشابہت کرنے والے لوگ اپنائے ہوئے ہیں ۔ ‘‘ (اقتضاء الصّراط المستقیم، ص 172) |