لیے کھلی نہیں رکھی گئی کہ لوگوں کی طرف سے اسے سجدہ گاہ بنائے جانے کا ڈر تھا ؟اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیسے فرما سکتے تھے کہ میری قبر کو میلہ گاہ نہ بنانا، بلکہ جہاں بھی ہونا، درود پڑھ دینا، آپ جہاں بھی ہو گے، درود مجھ تک (فرشتوں کے ذریعے) پہنچ جائے گا؟ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ بات آپ کے صحابہ اور آپ کے اہل بیت کی سمجھ میں نہ آئی، جو شرک وتحریف کو جمع کرنے والے گمراہوں کی سمجھ میں آئی ہے۔‘‘ (اغاثۃ اللّہفان من مَصاید الشّیطان، ص 193-192) شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَا تَجَعَلُوْا زِیَارَۃَ قَبْرِي عِیْدًا، أَقُوْلُ : ہٰذَا إِشَارَۃٌ إِلٰی سَدِّ مَدْخَلِ التَّحْرِیْفِ کَمَا فَعَلَ الْیَہُوْدُ وَالنَّصَارٰی بِقُبُوْرِ أَنْبِیَائِہِمْ، وَجَعَلُوْہَا عِیْدًا وَّمَوْسِمًا بِمَنْزِلَۃِ الْحَجِّ ۔ ’’میری قبر کی زیارت میلہ نہ بنا لینا۔ میں کہتا ہوں کہ اس حدیث میں یہود ونصاریٰ کی طرح اپنے انبیا کی قبروں کو حج کا سا اجتماع یا تہوار بنانے کا دروازہ بند کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ ‘‘ (حجۃ اللّٰہ البالغۃ : 2/77) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) لکھتے ہیں : فِي الْجُمْلَۃِ ہٰذَا الَّذِي یُفْعَلُ عِنْدَ ہٰذِہِ الْقُبُوْرِ ہُوَ بِعَیْنِہِ الَّذِي نَہٰی عَنْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَوْلِہٖ : لَا تَتَّخِذُوا |