دوسرا معنی انہی صاحب نے کیا ہے : ’’تم ہماری قبر پر جلد جلد آیا کرو، مثل عید کے سال بھر کے بعد میں نہ آیا کرو۔‘‘ (جاء الحق از نعیمی، جلد 1 ص 326) علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ) لکھتے ہیں : ’’بعض لوگ جو شرک میں عیسائیوں اور تحریف میں یہودیوں جیسے ہیں ، انہوں نے ان احادیث میں تحریف کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان احادیث میں تو نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر لازم پکڑنے، اس پر اعتکاف کرنے، بار بار اس کی طرف جانے کا حکم ہے اور ممانعت یہ ہے کہ عید کی طرح سال کے سال جایا جائے، یعنی سال میں صرف ایک دو مرتبہ جانے سے منع کیا گیا ہے ۔ گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمانا چاہتے تھے کہ میری قبر کو اس عید کی طرح نہ بنانا جو سال بعد آتی ہے، بلکہ ہر وقت، ہر گھڑی اس کا قصد کرنا ۔ حالانکہ ان احادیث کا یہ مطلب لینا اللہ تعالیٰ سے بغاوت اور اس کی مخالفت ہے ۔ نیز یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کے خلاف ہے ۔ اس سے حقائق بدلنے کی کوشش کی گئی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ گرامی کی طرف تناقض کے ساتھ ساتھ تدلیس و تلبیس کی نسبت ہے ۔ اللہ تعالیٰ اہل باطل کو تباہ و برباد کرے، وہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ! جو شخص لوگوں کو اپنی قبر کی طرف بہت زیادہ آنے، اسے لازم پکڑنے اور بار بار زیارت کا حکم یہ کہہ کر دیتا ہے کہ میری قبر کو میلہ گاہ نہ بنانا، وہ فصاحت و بلاغت کی بجائے تلبیس اور تناقض کے زیادہ قریب ہے، اگر یہ گستاخی نہیں تو پھر دنیا میں گستاخی کا وجود ہی نہیں ، |