Maktaba Wahhabi

305 - 354
ہم کہتے ہیں کہ قبروں پر میلوں کی دلیل تو کجا، اسے تو شریعت نے ممنوع و حرام ٹھہرایا ہے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لَا تَجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ قُبُورًا، وَّلَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِیدًا، وَّصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ تَبْلُغُنِي حَیْثُ کُنْتُمْ ۔ ’’گھروں کو قبرستان مت بنائیں ، نہ ہی میری قبر کو میلہ گاہ بنانا، مجھ پر درود پڑھیں ، آپ جہاں بھی ہو گے، آپ کادرود مجھ تک پہنچے گا۔‘‘ (مسند الإمام أحمد : 2/368، سنن أبي داوٗد : 2042، واللّفظ لہٗ، وسندہٗ حسنٌٌ) حافظ نووی رحمہ اللہ (الاذکار ص 106، خلاصۃ الاحکام : 1/440) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (فتح الباری : 6/488) نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہٰذَا إِسْنَادٌ حَسَنٌ، فِإِنَّ رُوَاتَہٗ کُلَّہُمْ ثِقَاتٌ مَّشَاہِیرٌ ۔ ’’اس کی سند حسن ہے، اس کے تمام راوی مشہور ثقہ ہیں ۔‘‘ (اقتضاء الصّراط المستقیم : 2/654) اس حدیث میں قبروں پر میلے ٹھیلے لگانے کی واضح ممانعت ہے۔ اس کا یہ معنی بھی ایک صاحب نے کیا ہے : ’’میری قبر پر جمع نہ ہو، تنہا تنہا ہی آیا کرو۔‘‘ (جاء الحق از نعیمی، جلد 1 ص 325) سوال ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر اجتماع ممنوع ہے، تو کسی دوسرے کی قبر پر اجتماع کا جواز کہاں سے آیا؟
Flag Counter