Maktaba Wahhabi

301 - 354
وکذاب‘‘ ہے، اس کی روایت کا اعتبار نہیں ۔ عرس کا جواز تو اس سے بھی ثابت نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ بات خلاف واقعہ ہو ئی : ’’ اس اصل عرس کا ثبوت حدیث پاک اور اقوالِ فقہا سے ہے۔ ‘‘ (جاء الحق از نعیمی جلد 1 ص 322) احادیث کی حیثیت آپ نے ملاحظہ کی، اقوال فقہا اس پہ ہمیں ملے نہیں ۔ ہندؤوں کی ایک ریت البتہ ملی ہے، وہ اپنے متبرک مقامات کی زیارت کے لیے جمع ہوتے ہیں اور اس کا نام ’’جاترا‘‘ رکھتے ہیں ۔ 3.ایک دلیل یہ بھی ہے : ’’ مشکوٰۃ باب زیارۃ القبور میں ہے کہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں : ہم نے تم کو زیارت قبور سے منع فرمایا تھا : أَلَا فَزُورُوہَا۔ اب ضرور زیارت کیا کرو۔ اس سے ہر طرح زیارت قبور کا جواز معلوم ہوا، خواہ روزانہ ہو یا سال کے بعد اور خواہ تنہا زیارت کی جاوے یا کہ جمع ہو کر اپنی طرف سے اس میں قیود لگانا کہ مجمع کے ساتھ زیارت کرنا منع ہے ۔ سال کے بعد مقرر کر کے زیارت کرنا منع ہے، محض لغو ہے، معین کر کے ہو یا بغیر معین کیے ۔ ہر طرح جائز ہے۔‘‘ (جاء الحق، از نعیمی جلد 1ص 323) أَلَا فَزُورُوہَا کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ’’اب ضرور زیارت کیا کرو۔‘‘ اور کہتے ہیں : ’’اس سے ہر طرح زیارت قبور کا جواز معلوم ہوا۔‘‘ ’’ضرور‘‘ اور ’’جواز‘‘ پر غور کریں ۔ کتنا تضاد ہے؟ زیارت قبور والی حدیث سے عرس کا ثبوت فراہم کرنا صحابہ کرام اور ائمہ دین کے فہم کے خلاف ہے۔ کوئی بھی صحیح العقیدہ امام ان احادیث سے یہ مسئلہ ثابت
Flag Counter