بیدار کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں آپ کے معاملے میں فیصلہ کر دیتا ہوں ۔ علی رضی اللہ عنہ عرض کرنے لگے : یہ میری چچا زاد ہے اور میں نے اسے ساتھ لیا ہے اور میں ہی اس کا زیادہ حق دار ہوں ۔ جعفر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : یہ میری چچازاد ہے اور اس کی خالہ میرے عقد میں ہے۔ زید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یہ میری بھتیجی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے لیے ایسی بات کہی، جس نے ان سب کو راضی کر دیا، پھر فیصلہ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے حق میں کر کے فرمایا: خالہ والدہ ہی ہے۔ اس پر جعفر رضی اللہ عنہ اٹھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ناچنے لگے اور چکر لگانے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ کیا ہے؟ جعفر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یہ کام میں نے حبشیوں کو اپنے بادشاہ کے ساتھ کرتے دیکھا تھا۔‘‘ (طبقات ابن سعد : 4/36-35، مصنّف ابن أبي شیبۃ : 10/170، مختصراً) سند ’’ضعیف‘‘ ہے۔ 1.محمد بن علی باقر رحمہ اللہ تابعی ہیں اور براہ راست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کررہے ہیں ، لہٰذا یہ روایت ’’مرسل‘‘ ہے ۔ 2.حفص بن غیاث ’’مدلس‘ ‘ہیں ، سماع کی تصریح نہیں ہے۔ ثقہ مدلس بخاری ومسلم کے علاوہ ’’عن‘‘ سے روایت کرے، تو وہ ’’ضعیف‘‘ ہوتی ہے ۔ دلیل نمبر5 سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الْوَاقِدِيُّ : حَدَّثَّنِي ابْنُ أَبِي حَبِیْبَۃَ عَنْ |