دَعْہُمْ یَا عُمَرُ ۔ ’’حبشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نیزوں کے ساتھ (جنگی کھیل) کھیل رہے تھے کہ اچانک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ داخل ہوئے اور کنکریوں کی طرف جھکے تاکہ انہیں ماریں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عمر! انہیں چھوڑ دیجئے۔‘‘ (مسند الإمام أحمد : 2/308، صحیح البخاري : 2901، صحیح مسلم : 893) معلوم ہوا کہ حبشی عید کے دن، یعنی خوشی کے موقع پر جنگی مشقوں میں مصروف تھے۔ وہ یہ کام نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم واکرام میں نہیں کررہے تھے۔ تب ہی تو عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹا اور کنکریاں مارنے کے لیے تیار ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روکنے پر آپ رضی اللہ عنہ رُک گئے۔ اگر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم والا کام تھا، تو کیا (نعوذ باللہ!) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ گستاخ تھے کہ انہیں یہ کام پسند نہ آیا اور اسے روکنے کے درپے ہو گئے تھے؟ دوسرے یہ کہ محدثین اسے جنگی مشق قرار دیتے ہیں ، رقص نہیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’میں یہ مشقیں دیکھ رہی تھی کہ میرا جی بھر گیا اور میں خود ہی وہاں سے چلی گئی۔‘‘ (مسند الإمام أحمد : 6/33، صحیح البخاري : 949، صحیح مسلم : 892) ٭ علامہ قرطبی رحمہ اللہ (656ھ) لکھتے ہیں : أَمَّا لَعْبُ الْحَبَشَۃِ فِي الْمَسْجِدِ فَکَانَ لَعِبًا بِالْحِرَابِ وَالدَّرَقِ تَوَاثُبًا وَرَقْصًا بِہَا، وَہُوَ مِنْ بَابِ التَّدْرِیْبِ عَلَی الْحُرُوْبِ وَالتَّمْرِیْنِ وَالتَّنْشِیْطِ عَلَیْہِ، وَہُوَ مِنْ قَبِیْلِ الْمَنْدُوْبِ؛ وَلِذٰلِکَ |