وَسَمَاعِ آلَاتِ الْمَلَاہِي، وَطَعَنَ فِیہِ الْجُمْہُورُ بِاخْتِلَافِ الْمَقْصِدَیْنِ، فَإِنَّ لَعْبَ الْحَبَشَۃِ بِحِرَابِہِمْ کَانَ لِلتَّمْرِیْنِ عَلَی الْحَرْبِ، فَلَا یُحْتَجُّ بِہٖ لِلرَّقْصِ فِي اللَّہْوِ ۔ ’’صوفیا کے ایک گروہ نے اس حدیث سے رقص اور آلات موسیقی کے سماع پر استدلال کیا ہے، جمہور علما نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے، دونوں مقصد مختلف ہیں ، کیونکہ حبشی تو جنگی مشق کے لیے نیزوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، لہٰذا اس سے لہو ولعب میں رقص پر کوئی دلیل نہیں لی جا سکتی۔‘‘ (فتح الباري : 6/553) ٭ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (597ھ) لکھتے ہیں : زَفَنُ الْحَبَشَۃِ نَوْعٌ مِّنَ الْمَشْيِ، یَفْعَلُ عِنْدَ اللِّقَائِ لِلْحَرْبِ ۔ ’’ حبشیوں کے رقص سے مراد ایک قسم کی چال ہے، جو جنگ میں دشمن سے ملاقات کے وقت چلی جاتی ہے۔‘‘ (تلبیس إبلیس : 1/230) ٭ یہی علامہ قرطبی مفسر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے ۔ (تفسیر القرطبي : 15/215) ٭ حافظ نووی رحمہ اللہ یَزْفِنُونَ فرماتے ہیں : مَعْنَاہُ یَرْقُصُونَ، وَحَمَلَہُ الْعُلَمَائُ عَلَی التَّوَثُّبِ بِسِلَاحِہِمْ وَلَعِبِہمْ بِحِرَابِہِمْ عَلٰی قَرِیْبٍ مِّنْ ہَیْئَۃِ الرَّاقِصِ لِأَنَّ مُعْظَمَ الرِّوَایَاتِ إِنَّمَا فِیہَا لَعِبُہُمْ بِحِرَابِہِمْ، فَیَتَأَوَّلُ ہٰذِہِ اللَّفْظَۃُ |