Maktaba Wahhabi

263 - 354
اہل علم پر ان کا ردّ کرنا اور حسب استطاعت ان رسوم کو ختم کرنا واجب ہے۔‘‘ (تعلیق أحمد شاکر علی التّرمذي : 1/103) فتاویٰ شامی کے حوالے سے منقول ہے کہ اس حدیث سے قبروں کے اوپر گھاس وغیرہ رکھنے کا ندب(استحباب)ثابت ہوتا ہے۔تو عرض ہے کہ شامی صاحب کی یہ بات اجماع کے خلاف ہونے کی وجہ سے رد کی جائے گی۔ مولاناسرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں : ’’رہا شامی وغیرہ کا یہ قول کہ قبور پر ستور(چادریں وغیرہ)درست ہیں ، کیونکہ اس میں صاحب ِ قبر کی تعظیم ہے وغیرہ وغیرہ تو قابل التفات نہیں ، اس لیے کہ یہ غیر مجتہد کا قول ہونے کے علاوہ بلا دلیل بھی ہے۔‘‘ (راہِ سنت، ص 200) احمد یار خان نعیمی صاحب (1391ھ)لکھتے ہیں : ’’اولیاء اللہ کی قبروں پر چادریں ڈالنا جائز ہے کیونکہ اس کی وجہ سے عام زائرین کی نگاہ میں صاحب ِ قبر کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔‘‘ (جاء الحق : 1/299) اگر اولیاء اللہ کی قبروں کی یہ تعظیم واقعی ضروری تھی، تو شریعت نے اس طرف رہنمائی کیوں نہیں کی؟ علمائے حق اس سے باز کیوں رہے؟ اس پر دل کو تسلی یوں دی گئی : ’’چادر کی اصل یہ ہے کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ پاک میں کعبہ معظمہ پر غلاف تھا، اس کو منع نہ فرمایا۔‘‘ (جاء الحق از نعیمی :1 /299) اگر کعبۃ اللہ کے غلاف کو دلیل بنانا ہے، تو پھر ہر قبر پر چادر چڑھنی چاہیے اور اگر
Flag Counter