اس سے ایسا کوئی جواز نکلتا ہوتا، تو صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین اور ائمہ دین ضرور اس سے استدلال کر کے قبروں پر چادریں چڑھانے کے قائل و فاعل ہوتے۔ غلاف کعبہ تو ثابت ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔ (صحیح البخاري : 4280) اب قبروں پر چادریں چڑھانے کا ثبوت چاہیے۔ نعیمی صاحب لکھتے ہیں : ’’صدیوں سے حضور علیہ السلام کے روضہ پاک پر غلاف سبز ریشمی چڑھا ہوا ہے جو نہایت قیمتی ہے۔ آج تک کسی نے اس کو منع نہیں کیا۔ مقام ابراہیم یعنی وہ پتھر جس پر کھڑے ہو کر حضرت خلیل نے کعبہ معظمہ بنایا، اس پر بھی غلاف چڑھا ہوا ہے اور عمارت بنی ہوئی ہے۔ اللہ کی شان کہ نجدی وہابیوں نے بھی ان کو اسی طرح قائم رکھا۔ان پر غلاف کیوں چڑھائے؟ ان چیزوں کی عظمت کے لیے، احترامِ اولیاء کے لیے، ان کی قبور پر بھی غلاف وغیرہ ڈالنا مسحتب ہے۔‘‘ (جاء الحق : 1/299) نعیمی صاحب کو کسی نے غلط خبر دی ہے، قبر رسول پر کوئی غلاف نہیں ہے نہ مقام ابراہیم پرہے ، تو ثَبِّتِ الْعَرْشَ ثُمَّ انْقُشْ، جس عمل کو دلیل بنایا گیا، وہ عمل وجود ہی نہیں رکھتا۔ قبروں پر چادریں اور پھول وغیرہ چڑھانا بدعت ہے۔ اگر دلیل ہوتی، تو سلف صالحین اور ائمہ دین رحمہم اللہ بھی چڑھاتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ |