میں کھجورو ناریل وغیرہ کے پتے بچھاتے ہیں ، میرے خیال میں ان کے مدنظر یہی بات ہوتی ہے حالانکہ ان کے اس کام کا کوئی جواز نہیں ۔‘‘ (معالم السّنن : 1/27) علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ (1377ھ)فرماتے ہیں : ’’علامہ خطابی رحمہ اللہ نے بالکل سچ فرمایا ہے۔عام لوگ عیسائیوں کی تقلید میں اس بے اصل عمل پر بہت مصر ہو گئے ہیں اور اس بارے میں غلو کا شکار ہو چکے ہیں ، خصوصاً مصر میں ، حتی کہ وہ قبروں پر پھول رکھنے لگے اور ایک دوسرے کو تحفے دینے لگے، پھر لوگ ان پھولوں کو اپنے عزیز و اقارب کی قبروں پرتحفے کے طور پر اور زندوں سے حسن سلوک کے طور پر رکھنے لگے۔ یہ طریقہ علاقائی رسوم و رواج کے مشابہ ہو گیا۔آپ دیکھتے ہیں کہ مسلمان ملکوں کے سربراہ جب یورپ کے کسی علاقے میں جاتے ہیں تو ان کے عظیم لوگوں یا نامعلوم فوجیوں کی قبروں پر جاتے ہیں اور ان پر پھول چڑھاتے ہیں اور بعض تو بناوٹی پھول بھی رکھتے ہیں جن میں خوشبو تک نہیں ہوتی۔ وہ لوگ یہ کام انگریزوں کی تقلید اور پہلی اُمتوں کے طریقے کی پیروی میں کرتے ہیں ۔ عام لوگوں کی طرح علما بھی انہیں منع نہیں کرتے بلکہ آپ ان علما کو دیکھیں گے کہ وہ خود اپنے مُردوں کی قبروں پر ایسا کرتے ہیں ۔یہ بات بھی میرے علم میں ہے کہ اکثر اوقاف جنہیں فلاحی اوقاف کہا جاتا ہے، ان کی آمدنی قبروں پر پھول اور پتیاں چڑھانے کے لیے وقف ہے۔ یہ سب کام بدعات و خرافات ہیں جن کی کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں ۔ |