گاڑنے کا حکم نہیں دیا۔ فائدہ : ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ والی روایت (تاریخ بغداد : 1/183-182) ’’ضعیف‘‘ ہے۔ 1.شاہ بن عمار کون ہے؟ معلوم نہیں ہو سکا! 2.نضر بن منذر بن ثعلبہ عبدی کے حالات بھی نہیں مل سکے۔ 3.قتادہ رحمہ اللہ ’’مدلس‘‘ ہیں ، ان کا انس رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی صحابی سے سماع ثابت نہیں ۔ (جامع التّحصیل : 255) رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو دو گناہگار لوگوں کی قبروں پرکھجور کی ٹہنیاں گاڑی تھیں ، ظاہر ہے کہ قبریں کچی تھیں ، تب ہی ٹہنیاں ان پر گڑ گئیں اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا، تو کیا پکی قبروں پر ٹہنیوں کا گڑ جانا ممکن ہے؟ اہل خرد سے سوال ہے کہ اس حدیث کے کسی بھی لفظ سے اولیاء اللہ کی قبروں پر پھول چڑھانے کا جواز نکلتا ہے؟ اگر اس بدعت کو مذکورہ حدیثی دلیل کی وجہ سے سند جواز فراہم کیا جاتا، تو چاہیے تھا کہ گناہگاروں کی قبروں پر پھول چڑھائے جاتے، لیکن پہلے یہ بدعت ایجاد ہوئی، بعد میں اس کے دفاع میں ایک حدیث کو تختہ مشق بنایا، اسی لیے یہ تناقض لازم آیا۔ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ (855ھ)بھی لکھتے ہیں : کَذٰلِکَ مَا یَفْعَلُہٗ أَکْثَرُ النَّاسِ مِنْ وَّضْعِ مَا فِیہِ رَطُوبَۃٌ مِنَ الرَّیَاحِینَ وَالْبُقُولِ وَنَحْوِہِمَا عَلَی الْقُبُورِ، لَیْسَ بِشَيْئٍ، وَإِنَّمَا السُّنَّۃُ الْغَرْزُ ۔ |