’’ہر چیز اپنی تسبیح و نماز سے واقف ہے۔‘‘ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : لَقَدْ کُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِیحَ الطَّعَامِ، وَہُوَ یُؤْکَلُ ۔ ’’کھانا کھایا جا رہا ہوتا، تو ہم اس کی تسبیح سن رہے ہوتے تھے۔‘‘ (صحیح البخاري : 3579) جب کھانا بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتا ہے توقبروں پر چادروں کی طرح روٹیاں بھی چڑھانی چاہئیں ، مرغ قورمہ اور بریانی کی پلیٹیں بھی قبر کے اوپر رکھی جائیں ۔اس سے مرنے والے کو فائدہ ہو نہ ہو، عذاب میں کمی آئے یا نہ آئے، راہ چلتے کسی غریب کا بھلا ہو جائے گا۔اگر قبروں کی ایسی تعظیم کا کوئی دینی و شرعی فائدہ ہوتا، تو صحابہ کرام رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر وہ پھول چڑھاتے، اتنی چادریں ڈالتے، اتنے چراغ روشن کرتے، اسے اس قدر آراستہ کرتے، اسے اتنی خوشبو لگاتے اور اس پر اتنی مجاوری کرتے کہ قیامت تک کے لیے مثال قائم ہو جاتی، لیکن اللہ کی قسم ! یہ تمام امور بدعیہ ہیں ، ان کا دین کے ساتھ تعلق نہیں ۔ ایک استدلال : نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دوقبروں سے ہوا، انہیں عذاب ہورہاتھا، ان میں سے ایک اپنے پیشاب کی چھینٹوں سے اجتناب نہیں کرتا تھا اوردوسرا چغل خور تھا ۔ ثُمَّ أَخَذَ جَرِیدَۃً رَطْبَۃً، فَشَقَّھَا بِنِصْفَیْنِ، ثُمَّ غَرَزَ فِي کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَۃً، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! لِمَ صَنَعْتَ ھٰـذَا ؟ فَقَالَ : لَعَلَّہٗ |