معلوم ہوا کہ جو کام صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے دور میں نہیں ہوا، اسے بدعت حسنہ قرار دے کر سند جواز نہیں دیا جا سکتا۔قبروں پر پھول اور چادریں وغیرہ چڑھانے کا کام بدعت ہے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب (1391ھ) لکھتے ہیں : ’’قبروں پر پھول ڈالنا، چادریں چڑھانا، چراغاں کرنا علمائے اہل سنت کا فرمان ہے کہ پھول ڈالنا تو ہر مؤمن کی قبر پر جائز ہے، خواہ وہ ولی اللہ ہو یا گناہگار، اور چادریں ڈالنا اولیاء، علماء، صلحاء کی قبور پر جائز ہے، عوام مسلمین کی قبور پر ناجائز کیونکہ یہ بے فائدہ ہے۔‘‘ (جاء الحق : 1/269) ایک وضاحت کہ علمائے اہل سنت سے کوئی بھی قبروں پر پھول، چادریں چڑھانے کا قائل و فاعل نہیں ۔جو کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا، صحابہ کرام جس سے ناواقف تھے اور ائمہ سلف کو جس کا علم تک نہ ہوا، وہ نیکی کیسے بن گیا اور اسے سند جواز کیسے مل گئی؟ قبروں پر چادریں اور علمائے حق : ان بدعات کی مذمت میں علمائے حق کے اقوال ملاحظہ فرمائیں : ٭ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ)فرماتے ہیں : مِنَ الْمُحَرَّمَاتِ الْعُکُوفُ عِنْدَ الْقَبْرِ، وَالْمُجَاوَرَۃُ عِنْدَہٗ، وَسَدَانَتُہٗ، وَتَعْلِیقُ السُّتُورِ عَلَیْہِ، کَأَنَّہٗ بَیْتُ اللّٰہِ الْکَعْبَۃُ ۔ |