’’حضور علیہ السلام نے عثمان بن مظعون کی قبر پختہ پتھر کی بنائی تھی۔‘‘ (جاء الحق، جلد 1 ص 290) یہ بات ذخیرہ حدیث میں کہیں موجود نہیں ، جیسا کہ تفصیل گزر چکی ہے۔ قبروں پر تعمیر کے نقصانات : قبروں پر تعمیر کے بے شمار نقصانات ہیں ۔ 1.امام شافعی رحمہ اللہ (204ھ)فرماتے ہیں : أَکْرَہُ ہٰذَا لِلسُّنَّۃِ، وَالْآثَارِ، وَأَنَّہٗ کُرِہَ وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ أَنْ یُعَظَّمَ أَحَدٌ مِّنَ الْمُسْلِمِینَ یَعْنِي یُتَّخَذُ قَبْرُہٗ مَسْجِدًا، وَّلَمْ تُؤْمَنْ فِي ذٰلِکَ الْفِتْنَۃُ، وَالضَّلَالُ عَلٰی مَنْ یَأْتِي بَعْدُ فَکُرِہَ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ ۔ ’’میں اس طور و طریقہ کو سنت اور آثار کی بنا پر ناپسند کرتا ہوں ، اللہ بہتر جانتا ہے کہ کسی مسلمان کی اس قدر تعظیم کی جائے کہ اس کی قبر مسجد بنادی جائے، خدشہ ہے کہ بعد والوں کے لیے یہ وطیرہ فتنے اور گمراہی کا سبب بنے گا، اس لیے ایسا کرنا مکروہ ہے، واللہ اعلم۔‘‘ (کتاب الأمّ : 1/278) 2.حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’1.اس سے قبر کے پاس نماز پڑھنے کی راہ ہموار ہوتی ہے، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ 2.لوگ وہاں دعائیں کرتے ہیں ۔ یہ بدعت ہے۔ 3.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے ۔ |