Maktaba Wahhabi

244 - 354
’’تسویۃ القبور‘‘ کا معنی یہ ہے کہ قبر کی شرعی اونچائی برقرار رکھنا، نہ کہ پیوند زمین کرنا۔ نعیمی صاحب شاید صحیح طور سمجھ نہیں پائے۔ کہتے ہیں کہ ’’مسلمان کی قبر کے لیے سنت ہے کہ زمین سے ایک ہاتھ اونچی ہو‘‘ اس پرکیادلیل ہے؟ ثابت ہوا کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کا حکم مطلق قبور کے متعلق تھا ۔ اس کو کفار کی قبروں کے ساتھ خاص کرنا بلا دلیل ہے۔ لکھتے ہیں : ’’ورنہ تعجب ہے کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ تواونچی قبریں اُکھڑوائیں اوران کے فرزند محمد بن حنفیہ، ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قبر پر گنبد بنائیں ۔‘‘ (جاء الحق، جلد 1ص 294) سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے کبھی یہ حکم نہیں دیا کہ اونچی قبریں اکھاڑ دی جائیں ، نہ ہی محمد ابن حنفیہ رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی قبر پرقبہ بنایا۔ لفظ قبہ سے اگر یہ مراد لیں ، تو وہ غلط ہے، کیونکہ اس سے مراد تو خیمہ ہے۔ دوسرے وہ روایت بھی ضعیف ہے،جس میں خیمہ لگانے کا ذکر ہے۔ ایک ضعیف حدیث سے غلط استدلال کرنا اور سمجھنا کہ ’’قبہ وغیرہ بنانا شرعاً سنت صحابہ سے ثابت ہے۔‘‘ (جاء الحق، جلد 1 ص 282) گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے، کی قبیل سے ہے، کیونکہ کسی صحابی نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ ایک دلیل یہ بھی پیش کی جاتی ہے :
Flag Counter