حد کے مطابق اونچا کر دو، نہ کہ قبروں کا نام ونشان مٹا دیا جائے۔ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ (855ھ) لکھتے ہیں : قَالَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي التَّحْقِیْقِ وَہٰذَا مَحْمُوْلٌ عَلٰی مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَہٗ مِنْ تَعْلِیَۃِ الْقُبُوْرِ بِالْبِنَائِ الْحَسَنِ الْعَالِي ۔ ’’ابن الجوزی نے اپنی کتاب ’’التحقیق‘‘ میں فرمایا ہے کہ اس حدیث کا مصداق قبریں اونچی کرنے اور انہیں حسن تعمیر کا نمونہ بنانے کا عمل تھا، جسے وہ لوگ سر انجام دیا کرتے تھے۔‘‘(شرح أبي داوٗد : 6/174) بعض حضرات کہتے ہیں قبریں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بنتی تھیں کیا آپ روکتے نہیں تھے انہیں ؟ یہ درست ہے کہ قبریں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بنتی تھیں ، لیکن کیا ہر قبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بنائی گئی تھی؟ اور اس پر کیا دلیل ہے کہ وہ قبریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بنی تھیں ؟ بعض حضرات کہتے ہیں کہ ان دنوں عیسائیوں کی قبریں چونکہ اونچی ہوتی تھیں اس لئے انہیں کی قبریں گرانے کا حکم ہوا۔ أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقُبُوْرِ الْمُشْرِکِیْنَ فَنُبِشَتْ ۔ ’’حضور علیہ السلام نے مشرکین کی قبروں کا حکم دیا، پس اکھیڑ دی گئیں ۔‘‘ (جاء الحق از نعیمی، جلد 1 ص 294) یہ روایت صحیح بخاری (428)اورصحیح مسلم (524)میں ہے اور یہ بات درست ہے، لیکن قبریں اکھیڑنے اور انہیں برابر کرنے میں فرق ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جو برابر |