Maktaba Wahhabi

241 - 354
’’ہم نے ذکر کیا کہ قبر پر عمارت بنانا (ممنوع) ہے، بناء (عمارت) کا لفظ عام ہے اور ہرقسم کی عمارت کو شامل ہے، لہٰذا کراہت عام ہے، خواہ عمارت کسی قسم کی ہو۔‘‘ (شرح أبي داوٗد : 6/182) علامہ سندھی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لَا فَائِـدَۃَ فِي الْبِنَائِ عَلَیْہِ، فَلِذٰلِکَ نَھٰی عَنْہُ ۔ ’’قبر پر تعمیر کا کوئی فائدہ نہیں ، اسی لیے اس سے منع کیاگیا ہے۔‘‘ (حاشیۃ السّندي علی النّسائي : 4/88) جیسے کہا جاتا ہے : بنَیَ السُّلْطَانُ عَلٰی مَدِیْنَۃِ کَذٰا، أَوْ عَلٰی قَرْیَۃِ کَذٰا سُوْرًا ۔ ’’فلاں بادشاہ نے فلاں شہر یا بستی پر فصیل بنائی ہے۔‘‘ حالانکہ یہ فصیل بستی یا شہر کے اوپر نہیں بنائی جاتی، بلکہ اس کے ارد گرد واقع ہوتی ہے۔ عربی زبان میں اس کا استعمال بکثرت ہے۔ ایک دلیل یہ بھی پیش کی گئی ہے : ’’جن قبروں کو گرادینے کا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا ہے، وہ کفار کی قبریں تھیں نہ کہ مسلمین کی۔‘‘ (جاء الحق از نعیمی جلد 1 ص 293) اس پر کوئی دلیل نہیں کہ یہ کفار کی قبریں تھیں یامسلمانوں کی، یہ تو آسان سی بات ہے کہ کبھی قبر پرمٹی کی مقدار زیادہ ڈالی جاتی ہے ۔ وہ قبر اونچائی میں شرعی حد سے تجاوز کر جاتی ہے، یہ حرام ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے آدمی بھیجا کہ شرعی حد سے اونچی قبر کو شرعی
Flag Counter