پھر اس کی سند بھی ’’ضعیف‘‘ ہے۔ ابوطلحہ الاسدی ’’مجہول الحال‘‘ ہے۔ اسے صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ’’الثقات‘‘ (۵/۵۷۴) میں ذکر کیا ہے۔ یہ روایت جمیع سندوں کے ساتھ ’’ضعیف‘‘ ہے۔ قبر پر عمارت کی ممانعت پر خامہ فرسائی ملاحظہ ہو : ’’أَنْ یُّبْنٰی عَلَیْہِ یعنی قبر پر عمارت بنانا منع فرمایا۔ اس کے بھی چند معنی ہیں ، اولاً تو یہ کہ خود قبر پرعمارت بنائی جائے، اس طرح کہ قبر دیوار میں شامل ہو جاوے۔‘‘ سلف میں سے کسی نے یہ معنی نہیں کیا، امام شافعی رحمہ اللہ (204ھ) فرماتے ہیں : قَدْ رَأَیْتُ مِنَ الْوُلَاۃِ مَنْ یَّہْدِمَ بِمَکَّۃَ مَا یُبْنٰی فِیْہَا فَلَمْ أَرَ الْفُقَہَائَ یَعِیبُونَ ذٰلِکَ ۔ ’’میں نے مکہ میں حکمرانوں کو دیکھا کہ وہ قبروں پر بنی عمارتیں گراتے تھے ۔ کوئی فقیہ ان کی مخالفت کرتا نظر نہیں آتا۔‘‘ (کتاب الأمّ : 1/316) کیا کوئی عقل مند کہہ سکتا ہے کہ لوگ قبروں پر دیوار بناتے تھے۔ حکمران اسے گراتے تھے اور فقہا اہل علم اُسے کوئی عیب نہیں سمجھتے تھے؟ علامہ عینی رحمہ اللہ (855ھ) لکھتے ہیں : أَنْ یُّبْنٰی عَلَیْہِ أَيْ عَلَی الْقَبْرِ لِمَا ذَکَرْنَا، وَلَفْظُ الْبِنَائِ عَامٌ یَّشْمَلُ سَائِرَ أَنْوَاعِ الْبِنَائِ، فَالْکَرَاہَۃُ تَعُمُّ فِي الْجَمِیْعِ ۔ |