فائدہ جلیلہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے وصیت فرمائی تھی : أَنْ لَّا یَضْرِبُوا عَلٰی قَبْرِہٖ فُسْطَاطًا ۔ ’’لوگ ان کی قبرپر خیمہ نہ گاڑیں ۔‘‘ (مصنّف ابن أبي شیبۃ : 3/334، وسندہٗ صحیحٌٌ) جہاں کہیں قبہ کا لفظ آیا، یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ اس سے مراد قبر والا قبہ ہے، جبکہ اس قبہ سے مراد خیمہ ہے۔ بحث قبر پر خیمہ کے بارے میں نہیں ، گنبد کے بارے میں ہے۔ اس کے بارے میں کوئی جھوٹی اورمن گھڑت روایت بھی وارد نہیں ہوئی۔ ایک عبارت ملاحظہ ہو: ’’حضور علیہ السلام کے زمانہ میں خود لوگوں کو پختہ مکان بنانے کی ممانعت تھی ۔ ایک صحابی نے پختہ مکان بنایا، تو حضور علیہ السلام ناراض ہوئے یہاں تک کہ ان کے سلام کا جواب نہ دیا۔ جب اس کوگرایا، تب جواب دیا۔‘‘ (جاء الحق از نعیمی : 1/288) ’’پختہ مکان کی ممانعت تھی‘‘ وہ ممانعت کہاں ہے؟ ’’صحابی نے پختہ مکان گرا دیا‘‘ یہ کہاں ہے؟ روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے : فَرَأَی قُبَّۃً مُّشْرِفَۃً ۔ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بلند قبہ دیکھا۔‘‘ اسے ناپسند کیا، تو صحابی نے اسے گرا دیا۔ (سنن أبي داوٗد : 5237، مسند أبي یعلی : 4347، مشکل الآثار للطّحاوي : 1/416، شعب الإیمان للبیہقي : 10705) |