النَّہْيِ وَاللَّعَنِ الْوَارِدِ فِي ذٰلِکَ، وَلأَِحَادِیْثٍ أُخَرَ ۔ ’’ انبیا، صالحین اور بادشاہوں وغیرہم کی قبروں پر بنائی گئی مساجد منہدم کرنا یا کسی دوسرے طریقے سے انہیں ختم کرنا ثابت ہے، معروف علما تو اس بارے میں اختلاف نہیں کرتے۔ اسی طرح بلا اختلاف ان میں نماز بھی جائز نہیں ، مذکورہ نہی، لعنت اور دیگر احادیث کی بنا پر ہمارا ظاہر مذہب یہی ہے کہ ایسا کرنا درست نہیں ہے۔‘‘ (اقتضاء الصّراط المستقیم : 2/287) ایک جگہ یوں استدلال کیا گیا ہے کہ ’’حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت صدیقہ کے حجرے میں دفن کیا گیا۔ اگر یہ ناجائز تھا، تو پہلے صحابہ کرام اس کو گرا دیتے، پھر دفن کرتے۔‘‘ (جاء الحق از نعیمی : 1/284) حجرے میں دفن کرنا ناجائز نہیں ، اللہ کا حکم تھا، آپ کی قبر اس لئے کھلی نہیں رکھی کہ لوگ اسے سجدہ گاہ نہ بنا لیں ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : لَوْلَا ذٰلِکَ لَـأَبْرَزُوا قَبْرَہٗ غَیْرَ أَنِّي أَخْشٰی أَنْ یُّتَّخَذَ مَسْجِدًا ۔ ’’اگر خدشہ نہ ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھلی رکھی جاتی، نیز مجھے یہ بھی خدشہ ہے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد نہ بنا لیا جائے۔‘‘ (صحیح البخاري : 1330، صحیح مسلم : 528) رہا حجرہ ٔعائشہ پرگنبد، تو یہ صدیوں بعد بنایا گیا۔ دور سلف میں اس کا وجود نہیں ملتا۔ ایک استدلال یہاں سے ہے : |