’’حضرت حسن ابن حسن ابن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا۔ضَرَبَتِ امْرَأَتُہٗ الْقُبَّۃَ عَلٰی قَبْرِہٖ سَنَۃً’’تو ان کی بیوی نے ان کی قبر پرایک سال تک قبہ ڈالے رکھا۔‘‘ (جاء الحق از نعیمی، جلد ۱ ص ۲۸۵) نعیمی صاحب لغت عرب سے تو واقف ہیں ، خوامخواہ ہم ان سے بدظن نہیں ہوتے، البتہ یہاں وہ ’’القبہ‘‘ کا ترجمہ نہیں جان پائے اسی لئے اسے موجود ہ دور کا قبہ سمجھ لیا، حالانکہ یہاں ’’قبہ‘‘ سے مراد خیمہ ہے۔ دوسرے یہ ہے کہ یہ روایت صحیح البخاری میں تعلیقاً آئی ہے۔ (صحیح البخاري : 1330) اور اس کی سند میں محمد بن حمید رازی ’’ضعیف وکذاب‘‘ ہے۔ پھر اسی روایت کے اگلے الفاظ ملاحظہ ہوں : ثُمَّ رَفَعَتْ، فَسَمِعُوا صَائِحًا یَّقُولُ : أَلَا ہَلْ وَجَدُوا مَا فَقَدُوا؟ فَأَجَابَہٗ آخَرُ : بَلْ یَئِسُوا، فَانْقَلَبُوا ۔ ’’پھر انہوں نے اس خیمے کو اٹھا لیا تو ایک چیخنے والا کہتا سنائی دیا، کیا اپنا گم شدہ سامان ڈھونڈ لیا انہوں نے؟ دوسری آواز کہنے لگی : نہیں مایوسی سے واپس لوٹ چلے ہیں ۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ قبر پرخیمہ رونے کے لیے لگایا گیاتھا، نیز قبروں پرقبے بنانے والے ناکام ومایوس ہی ہوتے ہیں ۔ انہیں کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا یہ بے فائدہ اور فضول ہے۔ |