Maktaba Wahhabi

227 - 354
ثُمَّ حَمَلَہَا، فَوَضَعَہَا عِنْدَ رَأْسِہٖ ۔ ’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پتھر کو اُٹھاکر ان (سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ) کی قبر کے سرہانے رکھ دیا۔‘‘ لیکن استدلال کرنے والے مہربان کچھ پریشان ہیں ، فرماتے ہیں : ’’ان کی قبر کے سرہانے ایک پتھر نصب فرمایا۔‘‘ دوسری جگہ فرمایا گیا: ’’ معلوم ہوا کہ خود قبر عثمان کا تعویذ اس پتھر کا تھا۔‘‘ اور ایک جگہ یوں گویا ہوئے : ’’خود قبر میں سر کی طرف اس کو لگایا یا مطلب یہ کہ قبر ساری اس پتھر کی تھی، مگر سرہانے کا ذکر کیا۔‘‘ وغیرہ بھلا اس طرح ’’صغرے کبرے‘‘ جوڑنے سے قبروں پر گنبد بن جائیں گے؟ آسان سی بات تھی کہ بطور نشان اس قبر کے سرہانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پتھر رکھا۔ یہ جائز امر ہے۔ آج بھی بطور نشان قبر پر پتھر رکھا جاسکتا ہے۔ رہا قبر پھلانگنا، تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ قبر اتنی اونچی تھی کہ اس کو پھلانگنا مشکل تھا، بلکہ قبر کی لمبائی کی طرف اشارہ ہے کہ اس قدر لمبی قبر تھی کہ پھلانگنا مشکل تھا۔ بہر حال جو بھی ہو، اس سے قبروں پر قبے بنانے کا ثبوت نہیں ملتا۔ 3.قرآنِ کریم نے اصحاب کہف کا قصہ بیان کیا ہے : ﴿قَالَ الَّذِینَ غَلَبُوا عَلٰی أَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْہِمْ مَّسْجِدًا﴾ ۔ (الکہف : 21)
Flag Counter