ملنا ممکن نہیں ، پتھر بطور نشانی رکھا جاتا ہے، گنبد بطور معبد بنایا جاتا ہے، تواسے پتھر پر قیاس کر لینا کیسے ممکن ہے، جبکہ سلف امت میں سے ایسا کسی ایک نے بھی نہیں کہا؟ 2.خارجہ بن یزید رحمہ اللہ کہتے ہیں : رَأَیْتُنِي وَنَحْنُ شُبَّانٌ فِي زَمَنِ عُثْمَانَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَإِنَّ أَشَدَّنَا وَثْبَۃً الَّذِي یَثِبُ قَبْرَ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ حَتّٰی یُجَاوِزَہٗ ۔ ’’مجھے یاد ہے کہ ہم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جوان تھے۔ ہم میں سے زیادہ مضبوط وہ ہوتا تھا، جو سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر کو کُود کر پھلانگ جاتا تھا۔‘‘ (صحیح البخاري، قبل الحدیث : 1361، التّاریخ الصّغیر : 146، وسندہٗ حسنٌٌ) استدلال اس سے کچھ یوں ہے : ’’بخاری کی اس روایت سے معلوم ہوا کہ خود قبر عثمان کا تعویذ اس پتھر کا تھا اور دونوں روایات اس طرح جمع ہوسکتی ہیں کہ مشکوۃ میں جوآیا کہ قبر کے سرہانے پتھر لگایا، اس کے معنی یہ نہیں کہ قبر سے علیحدہ سر کے قریب کھڑا کردیا، بلکہ یہ ہے کہ خود قبر میں ہی سر کی طرف اس کو لگایا یا مطلب یہ کہ قبر ساری اس پتھر کی تھی، مگر سرہانے کا ذکرکیا۔ ان دونوں احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کسی خاص قبرکانشان قائم رکھنے کے لیے قبر کچھ اونچی کردی جائے یا پتھروغیرہ سے پختہ کردی جائے، تو جائز ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ کسی بزرگ کی قبر ہے۔‘‘ (جاء الحق از نعیمی : 1/283) حدیث کے الفاظ ہیں : |