4. حیان بن حصین ابوہیاج اسدی رحمہ اللہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : أَلَا أَبْعَثُکَ عَلٰی مَا بَعَثَنِي عَلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ أَنْ لَّا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَہٗ وَلَا قَبْرًا مُّشْرِفًا إِلَّا سَوَّیْتَہٗ ۔ ’’میں آپ کواس کام کے لیے نہ بھیجوں ، جس کے لیے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا؟ کوئی مُورتی دیکھو، تو اسے مٹا دو اور کوئی بلند قبر دیکھو تو اسے برابر کردو۔‘‘ (صحیح مسلم : 969) علامہ شوکانی رحمہ اللہ (1250ھ) لکھتے ہیں : ’’اس حدیث میں بیان ہے کہ فاضل وغیرفاضل کا فرق کیے بغیر قبر زیادہ اونچی نہ کرنا مسنون ہے ۔ ظاہر ہے قبروں کو مقررہ مقدار سے اونچا کرنا حرام ہے۔ … قبریں اونچی کرنے کی ممانعت میں سب سے پہلے قبے اور پر رونق مزارات داخل ہیں ۔ یہ قبروں پر مساجد بنانے کے زمرے میں بھی آتے ہیں ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والے پرلعنت فرمائی ہے۔ قبریں پختہ بنانے اور ان کی آرائش وزیبائش میں کتنے ہی ایسے مفاسد مضمر ہیں ، جن پراسلام روتا ہے۔ ایک مفسدہ جہلا کا وہ اعتقاد ہے، جوکفار کے بتوں بارے اعتقاد سے ملتا جلتا بلکہ اس سے گھمبیر ہے۔ انہوں نے قبروں کو نفع پہنچانے اورنقصان ہٹانے پر قادر سمجھ لیا ہے۔ انہوں نے قبروں کو حاجت روائی کا مرکز اور مقاصد کے حصول کے لیے پناہ گاہ بنا لیا ہے۔ جو کچھ بندے اپنے ربّ سے مانگتے ہیں ، انہوں نے وہ کچھ قبروں سے مانگنا |