مسجد میں آجائے،یہ منع ہے۔لیکن اگر قبر کے پاس مسجد ہو، برکت کے لیے تو جائز ہے، یعنی اس جگہ انہوں نے علٰی کو اپنے حقیقی معنی پر رکھا، جس سے لازم آیا کہ خود تعویذ قبر پر چراغ جلانا منع ہے، لیکن اگر قبر کے اردگرد ہو تووہ قبر پر نہیں ۔‘‘ (جاء الحق : 1/304) اوپر ہو یا اردگرد ، شریعت نے قبر پرمسجد بنانے سے منع کیا ہے، مثلاً عرب کہتے ہیں : بنَیَ السُّلْطَانُ عَلٰی مَدِیْنَۃِ کَذٰا، أَوْ عَلٰی قَرْیَۃِ کَذٰا سُوْرًا ۔ ’’حاکم نے فلاں شہر یا فلاں بستی پر فصیل بنائی۔‘‘ حالانکہ یہ فصیل بستی کے اوپر نہیں بنائی جاتی بلکہ اس کے اردگرد بنی ہوتی ہے۔ عربی زبان میں یہ اسلوب بہت عام ہے۔ یہی مسئلہ چراغ جلانے کا ہے، قبر کے اوپر ہوں یا ارد گرد منع ہی ہیں ، یہاں ’’علیٰ‘‘ کو حقیقی معنی پر رکھنا نہ تو لغت سے موافق ہے اور نہ سلف کی تائید اس کے ساتھ ہے۔ قبروں پر چراغ اور اہل علم کا موقف : اس سلسلہ میں اہل علم کی آرا بھی ملاحظہ فرمائیں : 1.علامہ ابو محمد عبد الغنی مقدسی رحمہ اللہ (600ھ) فرماتے ہیں : لأَِنَّ فِیْہِ تَضْیِیْعًا لِلْمَالِ فِي غَیْرِ فاَئِدَۃٍ، وَّإِفْرَاطاً فِي تَعْظِیمِ الْقُبُوْرِ، أَشْبَہَ تَعْظِیْمِ الْـأَصْنَامِ ۔ ’’اس میں مال کا ضیاع ہے اوریہ قبروں کی تعظیم میں غلو کا باعث ہے، جو بتوں کی تعظیم سے مشابہت بھی رکھتا ہے۔‘‘ (إغاثۃ اللّہفان لابن القیم : 1/197) |