Maktaba Wahhabi

203 - 354
نہ گھبرائے گا جیسا کہ آج کل بعض عورتیں چالیس روز تک لحد میں مردے کی جگہ چراغ جلاتی ہیں ۔ یہ سمجھتی ہیں کہ روزانہ مردے کی روح آتی ہے اور اندھیرا پا کر لوٹ جاتی ہے، لہٰذا روشنی کردو۔ یہ حرام ہے، کیونکہ تیل کا بلا ضرورت خرچ ہے اور بدعقیدگی بھی ہے۔ اسی کو یہ منع فرما رہے ہیں ۔ عرس کے چراغات نہ تو اس نیت سے ہوتے ہیں اور نہ شروع راتوں میں ۔ اگر یہ مطلب نہ ہو تو شروع راتوں کی قید کیوں ہے؟‘‘ (جاء الحق :1 / 306-305) فتاویٔ عالمگیری میں کسی خاص علاقے کی خاص بدعت کا ردّ ہو رہا ہے کہ وہاں کے لوگ مہینے کی پہلی تاریخوں کو قبروں پر چراغ جلاتے تھے۔ اسے بدعت کہا جا رہا ہے، اس سے عام دنوں میں چراغ جلانے کا جواز کیوں کرثابت ہوا؟ عرسوں کے چراغ کسی بھی نیت سے ہوں ، وہ بدعت ہیں ، کیونکہ شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں ان کا کوئی ثبوت نہیں ۔عرس بذات ِ خود بدعت ہے۔ صحابہ و تابعین اور ائمہ دین نے انبیا وصلحا کی قبروں پر عرس کا اہتمام نہیں کیا۔جب عرس بدعت ہے تو اس پر ہونے والے والے کام کیوں بدعت نہیں ہوں گے؟ ٭ نعیمی صاحب لکھتے ہیں : ’’دوم یہ کہ حدیث میں ہے : وَالْمُتَّخِذِینَ عَلَیْہَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ‘ (حضور علیہ السلام نے ان پر لعنت فرمائی، جو قبروں پر مسجدیں بنائیں اور چراغ جلائیں )۔ ملا علی قاری اور شیخ عبد الحق دہلوی ودیگر شارحین اسی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ خود قبر پر مسجد بنانا کہ قبر کی طرف سجدہ ہو یا قبر فرشِ
Flag Counter