Maktaba Wahhabi

202 - 354
بدعت اور حرام، اگر ولی اور شیخ کی روح کی تعظیم میں ایسا کریں ، تو غلو اور حرام، اگر ویسے ہی جلائیں ، تو بے فائدہ، فضول اور بدعت ہے۔ چونکہ شریعت نے کسی صورت بھی قبر پر چراغ جلانے کی اجازت نہیں دی، صحابہ و تابعین اور ائمہ دین نے اسے بطور تعظیم اختیار نہیں کیا۔ رہی بات ’’ضریح‘‘ کی، تونعیمی صاحب اس کا مطلب ہی نہیں سمجھ پائے۔ ’’ضریح‘‘ قبر ہی کو کہتے ہیں یا قبر کے درمیان تنگ جگہ کو کہتے ہیں ۔(القاموس الوحید : 966) لہٰذا قبر کے اوپر چراغ جلائیں یا اس کے آس پاس جلائیں یا جس عمارت میں قبر ہو، اس کے طاقچے میں ، وہ قبر پر ہی متصور ہو گا جو کہ ممنوع و حرام ہے۔جب ایک کام جائز ہے تواس کی نذر ماننا حرام، باطل اور بدعت کیسے ہو گیا؟یہ بھی قابل غور ہے کہ کسی کے نام پر قبر سے دور چراغاں کرنا بھی بدعت ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تو بالاتفاق مدینہ منورہ میں ہے۔ ٭ نعیمی صاحب ’’فتاویٔ عالمگیری‘‘سے ایک عبارت نقل کر کے اس پر یوں تبصرہ کرتے ہیں : ’’عالمگیری کی اصل عبارت یہ ہے : إِخْرَاجُ الشُّمُوعِ إلٰی رَأْسِ الْقُبُورِ فِي اللَّیَالِيِ الْـأُوَلِ بِدْعَۃٌ ۔ ’’شروع راتوں میں قبرستان میں چراغاں لے جانا بدعت ہے۔ ‘‘ اس میں دو کلمے قابل غور ہیں ۔ ایک تو إِخْرَاجُ اور دوسرے فِي اللَّیَالِيِ الْـأُوَلِ، ان سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ اس زمانے میں لوگ اپنے نئے مردوں کی قبروں پر چراغاں لے جا کر جلا آتے تھے۔ یہ سمجھ کر کہ اس سے مردہ قبرمیں
Flag Counter