قبروں پر چراغاں کے حوالے سے شبہات: ٭ احمدیار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں : ’’چنانچہ پہلے حکم تھا کہ مزارات پر روشنی نہ کرو، اب جائز قرارپایا۔تفسیر روح البیان میں زیر آیت ﴿إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّٰہِ﴾ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کے مینارہ پر ایسی روشنی کی تھی کہ بارہ میل مربع میں عورتیں اس کی روشنی میں چرخہ کاتتی تھیں اور بہت ہی سونے چاندی سے اس کو آراستہ کیا تھا۔‘‘ (جاء الحق : 1/305) ہم کہتے ہیں کہ ’’اب جائز قرار پایا‘‘ پر کیا دلیل؟ اور یہ بات فقہائے احناف کو معلوم کیوں نہ ہوئی؟وہ قبروں پر چراغاں کو بے اصل اور رسمِ جاہلیت قرار دیتے ہیں ۔ نعیمی صاحب نے اسماعیل حقی بن مصطفٰی استنبولی (1127ھ)کی تفسیر ’’روح البیان‘‘سے سیدنا سلیمان علیہ السلام کی طرف ایک عجیب بات منسوب کر دی ہے۔اس کی سند نہیں دی ہے۔ دوسرے یہ کہ کہاں بیت المقدس کے مینارے پر روشنی کرنے کا عمل اور کہاں صالحین کی قبروں پر چراغاں کا اثبات ، یہ استدلال بالکل بھی نہیں بنتا۔ ٭ علامہ ابن عابدین، شامی حنفی رحمہ اللہ (1307ھ) کی عبارت کے جواب میں لکھتے ہیں : ’’شامی کی عبارت تو بالکل صاف ہے۔ وہ بھی عرس کے چراغاں کو منع نہیں کر رہے، وہ فرما رہے ہیں کہ چراغ جلانے کی نذر ماننا جس میں اولیاء اللہ سے قرب حاصل کرنا منظور ہو، وہ حرام ہے کیونکہ شامی کی عبارت درمختار کی اس عبارت کے ماتحت ہے : اِعْلَمْ أَنَّ النَّذْرَ الَّذِي یَقَعُ لِلْـأَمْوَاتِ مِنْ أَکْثَرِ الْعَوَّامِ وَمَا یُؤْخَذُ |