نعیمی صاحب لکھتے ہیں : ’’فتاویٰ بزازیہ میں بھی ہے، یعنی قبرستان میں چراغ لے جانا بدعت ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ۔‘‘ (جاء الحق : 1/302) نعیمی صاحب نے فتاویٔ شامی جلد دوم، کتاب الصوم سے یہ بھی نقل کیا ہے : أَمَّا لَوْ نَذَرَ زَیْتًا لِإِیقَادِ قِنْدِیلٍ فَوْقَ ضَرِیحِ الشَّیْخِ أَوْ فِي الْمَنَارَۃِ کَمَا یَفْعَلُ النِّسَائُ مِنْ نَذْرِ الزَّیْتِ لِسَیِّدِي عَبْدِ الْقَادِرِ وَیُوقَدُ فِي الْمَنَارَۃِ جِہَۃَ الْمَشْرِقِ فَہُوَ بَاطِلٌ ۔ ’’اگر شیخ کی قبر پر یا مینارہ میں چراغ جلانے کے لیے تیل کی نذر مانی جیسے کہ عورتیں حضور غوث پاک کے لیے تیل کی نذر مانتی ہیں اور اس کو مشرقی مینارہ میں جلاتی ہیں ، یہ سب باطل ہے۔‘‘ (جاء الحق :1 / 303-302) مزید لکھتے ہیں : ’’قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے ارشاد الطالبین میں لکھا : چراغاں کرنا بدعت ہے۔حضور علیہ السلام نے قبر کے پاس چراغاں کرنے اور سجدے کرنے والیوں پر لعنت فرمائی۔ شاہ عبد العزیز صاحب کے فتاویٰ میں صفحہ ۱۴ پر ہے : لیکن عرسوں میں حرام کام کرنا جیسے چراغاں کرنا اور ان قبروں کو غلاف پہنانا، یہ سب بدعت سیّئہ ہیں ۔‘‘ (جاء الحق : 1/303) |