’’اللہ تعالیٰ نے بھٹکے ہوئے اور بے علم مقلدین کا حال اس طرح بیان کیا : ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِي اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطَانٍ مَّرِیدٍ﴾ ’’بعض لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بغیر علم کے بحث کرتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کا اتباع کرتے ہیں ۔‘‘ساتھ ہی گمراہی کی طرف دعوت دینے والے کفر اور بدعت کے سرغنوں کا حال بھی بیان کر دیا، چنانچہ فرمایا : ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِي اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًی وَّلَا کِتَابٍ مُّنِیرٍ﴾ ’’ بعض لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں علم، ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر بحث مباحثہ کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں عقل صحیح اور نقل صریح کے بغیر صرف خواہشات و آرا کی روشنی میں بحث کرتے ہیں ۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر : 4/413) قبروں پر چراغ جلانا قرآن و سنت سے ثابت نہیں ، لہٰذا ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیش قدمی ہے۔ احمد یار خان نعیمی صاحب(1391ھ) لکھتے ہیں : ’’کسی کی قبر پر بے فائدہ چراغ جلانا منع ہے کہ یہ فضول خرچی ہے اور اگر فائدے سے ہو تو جائز ہے۔فوائد کل چار بیان ہوئے ہیں ۔ تین عام مؤمنین کی قبروں کے لیے اور چوتھا یعنی تعظیم، روح ولی، مشائخ و علماء کی قبور کے لیے۔‘‘ (جاء الحق : 1/303) قارئین قرآن کریم کی مذکورہ آیات اور ان کی تفسیر پر غور فرمائیں ، پھر نعیمی صاحب کی عبارت ملاحظہ فرمائیں ۔ معاملہ بالکل صاف ہو جائے گا۔ |