رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما کی قبریں نہ بلند تھیں اور نہ پکی تھیں ، بلکہ زمین سے تھوڑی سی اونچی اور کچی تھیں ۔ان پر کوئی چادر وغیرہ نہیں ڈالی گئی تھی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا انہیں کھولنا مجاوری کا ثبوت نہیں بن سکتا، کیونکہ یہ قبریں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھیں ، نہ کہ سیدہ عائشہ نے ان پر پڑاؤ کیا تھا، اب کوئی دیکھنا چاہے، تو ان قبروں کو کھولنا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذمہ داری تھی، جو انہیں نبھانا ہی تھی۔ سو وہ نبھاتی رہیں ، رضی اللہ عنہا۔ نعیمی صاحب مزید لکھتے ہیں : ’’حضرت حسن ابن حسن ابن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا۔ ضَرَبَتِ امْرَأَتُہُ الْقُبَّۃَ عَلٰی قَبْرِہٖ سَنَۃً ۔ تو ان کی بیوی نے ان کی قبر پرایک سال تک قبہ ڈالے رکھا۔‘‘(جاء الحق : 1/285) نعیمی صاحب لغت عرب سے تو واقف ہیں ، خوامخواہ ہم ان سے بدظن نہیں ہوتے، البتہ یہاں وہ ’’القبہ‘‘ کا ترجمہ نہیں جان پائے، اسی لئے اسے موجود ہ دور کا قبہ سمجھ لیا، حالانکہ یہاں ’’قبہ‘‘ سے مراد خیمہ ہے۔ دوسرے یہ ہے کہ یہ روایت صحیح البخاری میں تعلیقاً آئی ہے۔ (صحیح البخاري : 1330) اور اس کی سند میں محمد بن حمید رازی جمہور کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہے۔ اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : یہ ’’ضعیف‘‘ ہے۔ (تقریب التّہذیب : 5834) پھر اسی روایت کے اگلے الفاظ ملاحظہ ہوں : |