پرستی سے مشابہ ہیں ، مثلاً ان پر اعتکاف کرنا، ان کے پاس مجاور بن کر بیٹھنا، ان پر پردے لٹکانا، ان کی خدمت کے لیے وقف ہونا وغیرہ۔ قبر پرست قبروں کی مجاوری کو بیت اللہ کی مجاوری پر ترجیح دیتے ہیں اور ان کا یہ نظریہ ہے کہ قبروں کی خدمت بیت اللہ کی خدمت سے افضل ہے۔‘‘ (إغاثۃ اللّہفان : 1/197) مفتی احمدیار خان نعیمی صاحب (1391ھ) لکھتے ہیں : ’’مجاور بننا تو جائز ہے۔ مجاور اسی کو تو کہتے ہیں جو قبر کا انتظام رکھے، کھولنے بند کرنے کی چابی اپنے پاس رکھے وغیرہ وغیرہ۔ یہ صحابہ کرام سے ثابت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ مسلمانوں کی والدہ حضور علیہ السلام کی قبر انور کی منتظمہ اور چابی والی تھیں ۔ جب صحابہ کرام کو زیارت کرنی ہوتی توان سے کھلوا کر زیارت کرتے۔دیکھو مشکوٰۃ باب الدفن، آج تک روضہ مصطفی علیہ الصلاۃ والسلام پر مجاور رہتے ہیں ، کسی نے ان کو ناجائز نہ کہا۔‘‘ (جاء الحق : 1/293) نعیمی صاحب کی یہ توجیہات خلاف واقعہ تو ہیں ہی، ان میں گستاخی کا پہلو بھی پایا جاتا ہے، مثلا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مجاور کہنا توہین کے زمرے میں آتا ہے، روضہ رسول پر مجاور نہیں رہتے، یہ خلاف واقعہ ہے۔ رہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا صحابہ کے لیے حجرہ کھول دینا، تو اس کا مجاوری سے کوئی تعلق نہیں ، وہ ان کا اپنا حجرہ تھا، اس میں وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے بھی رہائش پذیر تھیں ، وہ اپنے حجرے کو کھول سکتی تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر آپ کے حجرے میں اس لئے بنائی گئی کہ اللہ کا حکم یہی تھا۔ اسے مجاوری سے تشبیہ دینا تو انصاف نہیں ۔ |