Maktaba Wahhabi

184 - 354
اس پر کوئی دلیل نہیں کہ شیطان قبر میں انسان کو ورغلاتا ہے، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ہے کہ انہوں نے ایک میت کے دفن کے بعد یہ الفاظ کہے : اَللّٰہُمَّ أَجِرْہَا مِنَ الشَّیْطَانِ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ۔ ’’اے اللہ! اسے شیطان کے وسوسے اور قبر کے عذاب سے محفوظ فرما۔‘‘ (سنن ابن ماجہ : 1553) اس کی سند ضعیف ہے۔ 1.حماد بن عبد الرحمن ضعیف ہے۔ 2.ادریس بن صبیح اودی مجہول ہے۔ اسے امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے ’’مجہول‘‘ کہا ہے۔ (الجرح والتّعدیل لابن أبي حاتم : 2/264) حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (۵۹۷ھ) فرماتے ہیں : ’وَأَمِنَ الْفَتَّانَ‘ فَسَّرَہٗ أَبُو عَبْدِ اللّٰہِ الْحُمَیْدِيُّ، فَقَالَ : اَلْفَتَّانُ : الشَّیْطَانُ، لِأَنَّہٗ یُفْتَنُ النَّاسُ بِخَدْعِہٖ وَتَزْیِینِہِ الْمَعَاصِي، وَلَا أَرٰی لِہٰذَا التَّفْسِیرِ وَجْہًا؛ لِأَنَّ الْحِکَایَۃَ عَمَّا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَلَیْسَ لِلشَّیْطَانِ فِیمَا بَعْدَ الْمَوْتِ عَمَلٌ، وَّإِنَّمَا الْمَعْنٰی : أَمِنَ فِتْنَۃَ الْقَبْرِ ۔ ’’(وہ فتان سے محفوظ رہتا ہے) اس کی تفسیر میں ابو عبد اللہ حمیدی کہتے ہیں : ’’فتنان سے مراد شیطان ہے، کیونکہ لوگ فتنے کا شکار تب ہی ہوتے ہیں ،
Flag Counter