Maktaba Wahhabi

183 - 354
فراخ کر دیا ہے۔‘‘ (مسند الإمام أحمد : 3/360، ح :3 / 14934، 377، ح : 15094) سند ’’ضعیف‘‘ ہے، محمود بن عبدالرحمن بن عمرو بن جموح کی توثیق ثابت نہیں ۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : قَالَ الْحُسَیْنِيُّ : فِیہِ نَظَرٌ، قُلْتُ : وَلَمْ أَجِدْ مَنْ ذَکَرَہٗ غَیْرَہٗ ۔ ’’حسینی نے کہا ہے کہ اس میں نظر ہے، میں کہتا ہوں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ ان کے علاوہ کسی اور نے اسے ذکر کیا ہو۔‘‘ (مَجمع الزّوائد : 3/46) دلیل نمبر5 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاۃِ أَدْبَرَ الشَّیْطَانُ، وَلَہٗ ضُرَاطٌ، حَتّٰی لَا یَسْمَعَ التَّأْذِینَ ۔ ’’جب نماز کے لیے اذان کہی جاتی ہے، تو شیطان گوز مارتا ہواپیٹھ پھیر کر بھاگتاہے تاکہ وہ اذان نہ سنے۔‘‘ (صحیح البخاري : 608، صحیح مسلم : 389) یہاں مطلق اذان کا ذکر نہیں ، بلکہ نماز کے لیے اذان کا ذکر ہے، لہٰذا اس سے قبرپر اذان کا جواز ثابت کرنا درست نہیں ، کیونکہ شریعت مطہرہ میں قبر پر اذان کا ثبوت نہیں ملتا، نہ ہی صحابہ وتابعین، تبع تابعین اور ائمہ اسلام کی زندگیوں میں اس کا ثبوت ملتا ہے، لہٰذا اس کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
Flag Counter