امام مسلم کی شرط پر ’’صحیح‘‘ کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے موافقت کی ہے۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں : إِسْنَادُہٗ حَسَنٌ ۔ ’’اس کی سند حسن ہے۔‘‘(مَجمع الزّوائد :3 / 52-51) اس حدیث نے روز ِ روشن کی طرح واضح کردیا ہے کہ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قبر میں صرف پوچھا جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں موجود نہیں ہوتے۔ علامہ احمد قسطلانی رحمہ اللہ ہٰذَا الرَّجُلُ کی تشریح میں بیان کرتے ہیں : عَبَّرَ بِذٰلِکَ امْتِحَانًا لِئَلَّا یَتَلَقَّنَ تَعْظِیمَہٗ عَنْ عِبَارَۃِ الْقَائِلِ، قِیلَ یُکْشَفُ لِلْمَیِّتِ حَتّٰی یَرَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَہِيَ بُشْرٰی عَظِیمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِ إِنْ صَحَّ ذٰلِکَ، وَلَا نَعْلَمُ حَدِیثًا صَحِیحًا مَرْوِیًّا فِي ذٰلِکَ وَالْقَائِلُ بِہٖ إِنَّمَا اسْتَنَدَ لِمُجَرَّدِ أَنَّ الْإِشَارَۃَ لَا تَکُونُ إِلَّا لِلْحَاضِرِ، لٰکِنْ یَحْتَمِلُ أَنْ تَکُونَ الْإِشَارَۃُ لِمَا فِي الذِّہْنِ فَیَکُونُ مَجَازًا ۔ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہٰذَا الرَّجُلُ سے میت کے امتحان کے لیے تعبیر کیا گیا ہے تاکہ فرشتے کے کہنے سے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم سمجھ نہ پائے۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ میت سے پردہ ہٹا دیا جاتا ہے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیتی ہے۔ اگر یہ بات درست ہو، تو مؤمن کے لیے بہت بڑی بشارت ہے، لیکن ہم اس بارے میں ایک بھی صحیح حدیث نہیں جانتے۔ ان کا |