کے نام کی نذرونیاز اور منت سے کیا تعلق؟ اس حدیث سے ’’حضور کی خدمت میں خوشی کا نذرانہ‘‘ ثابت کرنا کوتاہ فہمی کے سوا کچھ نہیں ۔ طواف کو لغوی و شرعی میں تقسیم اگر کریں گے تو کل کلاں لغوی رکوع، لغوی سجدہ، لغوی نماز اور حج بھی مخلوق خدا کے ہاتھوں تخلیق ہو جائے گا، دلیل وہی ہو گی جو لغوی طواف کے لئے دی جاتی ہے۔ ممتاز اہل حدیث عالم ، خواجہ محمد قاسم رحمہ اللہ (1997ء)فرماتے ہیں : ’’مفتی صاحب کا یہ استدلال تب درست ہو سکتا ہے، اگر اولاً وہ یہ ثابت کر دیں کہ زندہ یا مردہ اولیاء کرام کی قبروں کا طواف لغوی معنوں میں جائز ہے یا لغوی معنوں میں انہیں سجدہ جائز ہے۔مفتی صاحب نے لغوی لغوی کی رَٹ لگا رکھی ہے۔بریلویوں کو چاہیے کہ اپنے عوام کو بتلا دیں کہ ان کے مذہب کا سارا تانا بانا لغوی ہے،شرعی نہیں ۔عبادات اور شرعی اصطلاحات کو لغوی معنی پہنا کر غیر اللہ کے لیے جائز کر دینے کو مذہبی تخریب کاری کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟یہ دین کی خدمت نہیں ،ہندوانہ سازش ہے۔‘‘ (معرکہ حق وباطل، ص 635) جناب غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں : ’’بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی حاجت کے وقت اولیاء اللہ کی نذر اس طرح مانے ؛ ’اے داتا! اگر تو نے میری یہ حاجت پوری کر دی تو میں تیرے لیے ایک بکرا پیش کروں گا۔‘ تو یہ نذر جائز ہے،کیونکہ یہ نذر لغوی ہے۔اور جو نذر غیراللہ کی حرام ہے،وہ نذرِ فقہی یا نذر ِشرعی ہے۔اور نذرِ |