’’ایک شخص نے نذر مانی تھی کہ میں بیت المقدس میں چراغ کے لیے تیل بھیجوں گا۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس نذر کو پورا کرو۔‘‘ (جاء الحق :1 / 308-307) لیکن یہ روایت ذخیرۂ حدیث میں موجود نہیں ۔ مفتی صاحب تو اب دنیا میں رہے نہیں کہ ان سے پوچھیں ، ان کے حلقہ احباب سے البتہ گزارش کی جاسکتی ہے کہ یہ حدیث کہاں ہے؟ اگرملے، تو مطلع کیجئے گا۔ آخر میں ایک گزارش بصد احترام کیا چاہتے ہیں کہ تقرب الٰہی کے لئے قبروں پر نذرو نیاز کو جائز قرار دینے سے قبر پرستی جیسی بہت سی خرابیاں جنم لے سکتی ہیں ، جن کی مثالیں ہمارے معاشرے میں جابجا مل جائیں گی ۔لہٰذا الحذر! نذر کی لغوی، عُرفی اور شرعی تقسیم : نعیمی صاحب لکھتے ہیں : ’’مشکوٰۃ باب مناقب عمر میں ہے کہ بعض بیویوں نے نذر مانی تھی کہ اگر حضور علیہ السلام جنگ ِاُحد سے بخیریت واپس آئے، تو میں آپ کے سامنے دَف بجاؤں گی۔یہ نذر بھی عُرفی تھی نہ کہ شرعی،یعنی حضورکی خدمت میں خوشی کا نذرانہ۔غرضیکہ لفظ ِنذر کے دو معنیٰ ہیں ؛ لغوی اور شرعی۔لغوی معنیٰ سے نذر بزرگانِ دین کے لیے جائز ہے،بمعنیٰ نذرانہ۔جیسے طواف کے دو معنیٰ ہیں ؛ لغوی معنی اس کے پاس گھومنا اور شرعی رب تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ﴾’’پرانے گھر کا طواف کریں ۔‘‘یہاں طواف شرعی معنی میں ہے اور فرماتا ہے : ﴿یَطُوْفُوْنَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ آنٍ﴾ یہاں |