ہٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الذَّبْحَ بِمَکَانِ عِیدِہِمْ وَمَحَلِّ أَوْثَانِہِمْ مَعْصِیَۃُ اللّٰہِ ۔ ’’معلوم ہواکہ مشرکین کی میلہ گاہوں اور ان کے استہانوں پر جانور ذبح کرنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔‘‘ (اقتضاء الصّراط المستقیم : 1/495) نیز فرماتے ہیں : إِذَا کَانَ تَخْصِیْصُ بُقْعَۃِ عِیدِہِمْ مَحْذُورًا، فَکَیْفَ بِنَفْسِ عِیدِہِمْ؟ ’’جب مشرکین کے میلے کی جگہ پرجانور ذبح کرنا ممنوع ہے، تو خاص ان کے میلے میں جانور ذبح کرنا کیسے جائز ہو گیا؟‘‘ (اقتضاء الصّراط المستقیم : 1/497) تنبیہ نمبر 1 : احمد یار خان نعیمی صاحب نے مذکورۃ الصدر حدیث یوں ذکر کی ہے : ’’مشکوٰۃ باب النذور میں ہے کہ کسی نے نذر مانی تھی کہ میں بوانہ مقام میں اونٹ ذبح کروں گا، تو فرمایا گیا کہ اگر کوئی وہاں بت وغیرہ نہ ہو،تو نذر پوری کرو۔‘‘ (جاء الحق : 1/308) یعنی حدیث میں موجود میلے کے الفاظ ذکر ہی نہیں کئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! تنبیہ نمبر 2 : مفتی صاحب نے ایک حدیث یوں لکھی ہے : |