Maktaba Wahhabi

158 - 354
خدمت کے لیے وقف ہو گا۔نذر اللہ کی اور مصرف بیت المقدس۔‘‘ (جاء الحق : 1/307) کہاں وہ نذر جو سیدہ مریم علیہا السلام کی والدہ نے اللہ تعالیٰ کے نام پر کی اور قرآنِ کریم نے بطور مدح اس کا ذکر کیا اور کہاں مُردوں کے نام کی وہ نذرونیاز جو قرآن وسنت، اجماعِ امت، فقہائے احناف اور سب مسلمانوں کے نزدیک باطل اور حرام ہے۔سیدہ مریم رضی اللہ عنہا کی والدہ ماجدہ نے نذر مانی تھی کہ میرے بطن میں جو بچہ ہے،میں نے اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا ہے۔انہوں نے یہ نذر پوری کی، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ﴾(آل عمران : 37) ’’چنانچہ اللہ نے ان کی نذر کو حسن قبولیت بخشا۔‘‘ عدل صاحب ادراک سے انصاف طلب ہے۔ قبروں پر نذر ونیاز اور حدیث نبوی : رہا اللہ کے لیے نذر مان کر مجاوروں پر خرچ کرنا،تو یہ شرعاً ممنوع اور ناجائز ہے۔ سیدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نَذَرَ رَجُلٌ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَّنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ، فَأَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’ہَلْ کَانَ فِیہَا وَثَنٌ مِّنْ أَوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ؟‘ قَالُوا : لَا، قَالَ :
Flag Counter