حجرہ میں لے جاؤ اور اپنی حاجت پوری کرو۔‘‘ (ملفوظات احمد رضا، ص 276-275) کیا آپ اسے بھی لغوی نذر قرار دے کر بدکاری کو عام کرنے میں ممد ومعاون بننا چاہیں گے؟ مذکورہ تمام چیزیں شریعت محمدیہ کے خلاف ہیں ، مثلاً : 1.اہل قبور سے گفتگو ہونا۔ 2.اہل قبور دلوں کے بھید سے واقف ہیں ۔ 3.قبر والے اُمورِ دنیا سرانجام دیتے ہیں ۔ یہ عقائد قرآن، حدیث اور اہل سنت کے سخت مخالف تو ہیں ہی، ان سے فحاشی اور عریانی جیسے ’’امور خیر‘‘ بھی سر انجام دیے جاتے ہیں ۔ ایک اور تاویل : مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں : ’’شامی(2/439)نے کتاب الصوم، بحث اموات میں اس طرح بیان فرمایا : بِأَنْ تَکُونَ صِیغَۃُ النَّذْرِ لِلّٰہِ تَعَالٰی لِلتَّقَرُّبِ إِلَیْہِ، وَیَکُونَ ذِکْرُ الشَّیْخِ مُرَادًا بِہٖ فُقَرَائُہٗ۔ ’’صیغہ نذر کا اللہ کی عبادت کے لیے ہو اور شیخ کی قبر پر رہنے والے فقرا اس کا مصرف ہوں ۔‘‘ یہ محض جائز ہے تو یوں سمجھو کہ یہ صدقہ اللہ کے لیے، اس کے ثواب کا ہدیہ روحِ شیخ کے لیے،اس صدقہ کا مصرف مزارِ بزرگ کے خدام فقراء جیسے کہ حضرت مریم کی والدہ نے مانی تھی کہ اپنے پیٹ کا بچہ خدایا تیرے لیے نذر کرتی ہوں ، جو بیت المقدس کی |