Maktaba Wahhabi

155 - 354
کروں گا،بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں پلاؤ کا صدقہ کروں گا اللہ کے لیے۔ اس پر جو ثواب ملے گا،آپ کو بخشوں گا، جیسے کوئی شخص کسی طبیب سے کہے کہ اگر بیمار اچھا ہو گیا تو پچاس روپیہ آپ کی نذرکروں گا۔‘‘ (جاء الحق : 1/307) جناب غلام رسول سعیدی صاحب اس کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں : ’’آج کل جس طرح اَن پڑھ عوام اپنی حاجات میں اولیاء اللہ کی نذریں اور منتیں مانتے ہیں اور حاجات پوری ہونے کے بعد مزارات پر نذریں پیش کرتے ہیں ۔اور بعض لوگ اس کو لغوی نذر کہہ کر سند ِجواز پیش کرتے ہیں ، اس کا قرآنِ مجید،احادیث ِصحیحہ اور آثارِ صحابہ میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔کتب فتاویٰ میں اس نذر کو حرام کہا گیا ہے۔یہ ایک خالص فقہی مسئلہ ہے۔اس میں کتب فقہیہ کو چھوڑ کر بعض غیر معصوم اور غیر معروف صوفیوں کے اقوال اور احوال سے استدلال کرنا کوئی فقاہت نہیں ہے،بلکہ عدل و انصاف سے بعید ہے۔‘‘ (شرح صحیح مسلم : 4/543) سعیدی صاحب نے واضح الفاظ میں بتایا کہ قرآن وسنت،افعالِ صحابہ کرام اور فقہ حنفی کے رُو سے بزرگوں کے نام کی نذرونیاز حرام ہے۔ غور وفکر کا مقام ہے کہ جن افعال پر قرآن وحدیث نے کوئی نص قائم نہیں کی اور جن سے سلف صالحین، یعنی صحابہ وتابعین بے خبر تھے، انہیں شرعی جواز فراہم کرنا کہاں کی علمی دیانت ہے؟ عامۃ الناس جب گیارہویں دیتے ہیں ، ان کی نیت میں نیاز پیش کرنا ہی ہوتا
Flag Counter