علامہ برکوی رحمہ اللہ ، علامہ ابوشامہ رحمہ اللہ (665ھ)سے نقل کرتے ہیں : ثُمَّ یَتَجَاوَزُونَ ہٰذَا إِلٰی أَنْ یُّعَظِّمَ وَقْعَ تِلْکَ الْـأَمَاکِنِ فِي قُلُوبِہِمْ، فَیُعَظِّمُونَہَا، وَیَرْجُونَ الشِّفَائَ لِمَرْضَاہُمْ وَقَضَائَ حَوَائِجِہِمْ، بِالنَّذْرِ لَہُمْ، وَہِيَ مِنْ بَیْنِ عُیُونٍ وَّشَجَرٍ وَّحَائِطٍ وَّحَجَرٍ ۔ ’’پھر یہ مشرکین اس سے بھی آگے بڑھتے ہیں اور اپنے دلوں میں ان مقامات کی تعظیم بٹھا لیتے ہیں ۔وہ ان جگہوں کی تعظیم بھی کرتے ہیں اور ان پر نذرونیاز چڑھا کر اپنے بیماروں کی شفا اور اپنی حاجات کی برآوری کی امید بھی کرتے ہیں ۔ایسی جگہیں درختوں ،پتھروں ، باغات اور چشموں پر واقع ہوتی ہیں ۔‘‘ (زیارۃ القبور، ص 547-546) ایک تاویل اور اس کا جواب : قارئین! اہل سنت کے علمائے کرام،کتب ِفقہ اور فقہائے احناف کے اقوال کی روشنی میں آپ نے بزرگوں کے نام کی نذرونیاز کا حرام اور شرک ہونا ملاحظہ فرما لیا۔ اتنی وضاحت و صراحت کے باوجود بعض حضرات غیر اللہ کی نذرونیاز کو تاویلات کی رو میں جائز کہنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ، ملاحظہ کیجئے : ’’کوئی کہتا ہے کہ یا حضور غوث پاک! آپ دُعا کریں ،اگر میرا مریض اچھا ہو گیا، تو میں آپ کے نام کی دیگ پکاؤں گا۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ میرے خدا ہیں ،اس مریض کے اچھا ہونے پر میں آپ کی یہ عبادت |